فرخندہ فرجام ،جلیلہ حیدر ۔۔۔ تحریر: رضا حسن

فرخندہ فرجام ،جلیلہ حیدر

 تحریر: رضا حسن

نیک، مبارک، خوش آئند،  فرخندہ اور فرجام سے مراد اچھا انجام اور نتیجہ ہے۔  فرخندہ فرجام یعنی جس کام کا نتیجہ نیک ہو۔  لکھنے سے پہلے میری سوچ حالت تذبذب میں تھی کہ آخر فرخندہ فرجام کو ہی میں کیوں اپنے مضمون کا عنوان منتخب کروں!؟  ہر موضوع کی اساسی امنگوں اور حیثیت کے جبر کے درمیان جھگڑے میں ہی عورت کا ڈرامہ اور راز و نیاز پوشیدہ ہے۔  بقول ول ڈیورانٹ “میں عورت کو ایک لڑکی کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں جس کی خوبصورتی کو پاکبازی نے چارچاند لگادیے ہیں اور کچھ کچھ وہ اس امر سے آگاہ بھی ہے کہ تھوڑی ہی دیر بعد شکاری اس کے اردگرد منڈلانے لگیں گے اور کوئی اسے بیڑیاں پہنا کر قید کرے گا اور پھر وہ صرف نسل کے فروغ کا ذریعہ ہی بن کر رہ جائے گی”(ترجمہ، ڈاکٹر ثوبیہ طاہر) ۔

 ایک عورت کیسے اس قرونِ وسطائئ سوچ اور قدامت پسندی کے دلدل سے نجات حاصل کر سکتی ہے؟ اس کے سامنے کونسی راہیں کھلی ہیں اور کونسی راہیں مسدود؟ محتاجی کی حالت میں خود انحصاری کیسے حاصل کی جائے؟  وہ کون سے حالات ہیں جو عورت کی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور جن پر قابو پانا ضروری ہے؟ انہی بنیادی نوعیت کے سوالات پر روشنی ڈالنے اور سمجھنے کیلئے ایک عورت کو ان سوالات سے پیوست کرنا انتہائی لازمی ہے کیونکہ سماج کے نصب العین سےعورت کا جدلیاتی رشتہ ہے۔ میری توصیف و تعریف کا پہلا سبب “جلیلہ حیدر” ہے جس کی ثابت  قدمی اور دلیرانہ کارکردگی میری اس متذبذب سوچ کی ایک خاص وجہ ہے۔  ناگفتہ نہ رہے کہ تحریر میں محترمہ جلیلہ کی تمثیل کو بیان کرنے کا مطلب اور مقصد  صرف عورتوں  کے شعوری اور ذہنی ارتقاء کو پروان چڑھانا ہے۔ قصہ مختصر، میری سعی یہ رہے گی کہ اپنے کھردرے خیالات کو نرم و نازک الفاظ کا جامہ پہناؤں تا کہ ان  پوشیدہ آفات کے آگے بند باندھ سکوں۔

 کسی بھی صورت حال کو ہم تب جان سکتے ہیں جب حال کا موازنہ ہم ماضی سے کریں کیونکہ ہر حال ماضی کا مستقبل ہوتا ہے۔  تاریخ کے مطالعے سے یہ جاننا مشکل نہیں کہ ماضی میں عورتوں کا کیا کردار رہا ہے اور اب کیا ہے۔ ہمارے سماج میں 72 سالوں کے تاریخی واقعات و شواہد سے بہ آسانی نتائج اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ جلیلہ حیدر  کون ہے اورکیا ہے؟ مزدور کے ہتھوڑے اور چھینی سے نکلنے والی ٹک ٹک آواز کی طرح ہماری تاریخ بھی اس بات کی گواہی دینے سے گریزاں اور دریغا نہیں کہ ذہنی اور شعوری ارتقاء کو پروان چڑھانے میں جلیلہ حیدر صف اول میں کھڑی پہلی دختر قوم ہے۔ محترمہ جلیلہ حیدر میں حالات اور واقعات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے- محترمہ بہادری کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کرتی رہی اور سخت سے سخت حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ خوشامد، چاپلوسی اور بلا وجہ کی نفرت ان کی فطرت کا حصہ نہیں. وہ دوسروں کے دست نگر رہنا پسند نہیں کرتی اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی دوسروں سے مدد طلب نہیں کرتی۔ وہ  نہ صرف خود عزت اور وقار کے ساتھ جینے کی خواہش مند ہے بلکہ اپنی ہم فکر اور ہم جنسوں کو بھی اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔  کاش ہمارے سماج میں جلیلہ حیدر جیسی پڑھی لکھی اور روشن فکر دس یا بیس عورتوں کی بافت ہوتی۔  لیکن، المناک، درد انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے  کہ ہمارے قدامت پسندانہ طرزِ فکر کی وجہ سے ہمارے سماج میں ایسی  کوئی حکمت عملی نہیں جس سے خواتین  کی کامیابی کیلئے ایک معقول راہ ہموار ہوسکے۔

رضا حسن
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *