رسی کی گانٹھ ۔۔۔ زہرا علی

رسی کی گانٹھ

زہرا علی

آخری قسط

دعوت میں دادی اور فاطمہ سب سے الگ تھلگ کونے میں ہی بیٹھی رہیں۔ فاطمہ نے  پہلی بار کسی کو دلہن بنتے دیکھا تھا۔ وہ دلہن کسی پری کی مانند خوبصورت لگ رہی تھی۔ کیا کوئی اتنی پیاری بھی ہو سکتی ہے!؟ جب اس نے یہ سوال دادی ماں سے پوچھا تو دادی ماں  نے جواب دیا “ناں بیٹا، میری فاطمہ تو دنیا کی سب سے حسین  دلہن بنے گی۔ کیونکہ تیرے من کی پاکیزگی تیرے چہرے  کا نور بن کر چمکے گی”۔  دادی ماں نے وہاں زیادہ ٹہرنے  کو مناسب نہ سمجھا، جانے کی اجازت مانگی تو پڑوسن کی عورت نے یہ کہہ کر انہیں  روکا کہ وہ تھوڑی دیر اور رکی رہیں تو کچھ اور رسومات بھی دیکھ لیں گی اور دلہے میاں کو بھی، جو ابھی تھوڑی ہی دیر میں  اپنی دلہن کے ساتھ ہوں گے۔ اصرار کرنے پر دادی ماں رک تو گئیں پر گھر جانے کو اتاولی دادی تھوڑی ہی دیر  میں پھر گھر جانے پر مصر ہوئی۔ اب کی بار فاطمہ نے دادی ماں سے درخواست کی کہ ِدادی ماں  تھوڑی دیر  رک کر چلتے ہیں ناں، دلہے میاں کو تو دیکھ لیں۔”نا بابا،  نہیں  دیکھنا ہمیں نا محرم مردوں کو، اور تو! تو کیوں اتنی اتاولی ہو رہی  ہے کسی اور کے مرد کو دیکھنے کے لیے؟ جب تیری اپنی شادی ہو گی تو جی بھر کر دیکھ لینا اپنے مرد کو” دادی اماں نے کھری کھری سنا دی۔ ۔ِ فاطمہ کو بہت مایوسی ہوئی کہ  دلہے میاں کو دیکھ نہ پا ئے گی۔ ابھی وہ اٹھے ہی تھے کہ “دلہے میاں آرہے ہیں، دلہے میاں آرہے ہیں” کی آوازیں بلند ہوئیں۔  وہ دونوں دروازے کئ طرف بڑھنے  لگیں تو چند عورتیں دلہے میاں کو لے کر اندر آگئیں۔  دلہے کے سر پر پھولوں  کا سہرا بندھا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی صورت ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ دادی ماں کے عقب میں کھڑی فاطمہ کو سہرے کے پیچھے سے دلہے کے مسکراتے ہونٹ نظر آئے۔ مسکراتے ہوئے خوش باش دلہے کا وہ ادھ  کھلا چہرہ فاطمہ کو  پسند آیا تھا۔

دعوت سے گھرواپس آئی تو فاطمہ اپنے ساتھ بہت سارے سہانے خواب بھی لے کرآگئی۔ وہ بھی اس دلہن کی طرح لگنا چاہتی تھی۔ اس کے بھی من میں مسکراتے ہوئے دلہے کی تمنا جاگ اٹھی تھی۔ وہ اس رات ٹھیک سے سو نہیں پائی۔  کبھی اس دلہن کا چہرہ، کبھی اس کے مسکراتے ہوئے دلہےکا مسکراتا ہوا ادھ کھلا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے  آنے لگتا۔ وہ سوچنے لگی کہ معلوم نہیں اس کا شوہر کون ہو گا؟ کیا ان کے دروازے پر  ملنے  والا وہ نوجوان لڑکا اسکا دلہا بنے گا؟ اور پھر نہ جانے کب تک وہ انہی خیالوں میں گم رہی  جہاں وہ ایک پیاری سی دلہن بنی  ہوئی  ہے اور وہ نوجوان لڑکا  اسکا دلہا ہے۔ نوجوان لڑکے کی دلہن بن کر اپنے وجود کے ساتھ اسکا جڑنا  فاطمہ کے لیے بہت خوش کن احساس تھا۔

اس دن کی دعوت کے بعد دادی اور فاطمہ اور بھی کئی دعوتوں پر گئیں مگر دادی کے بقول مجال ہے جو فاطمہ کے لیے کوئی  واحد رشتہ بھی ملا ہو۔ ایک دن فاطمہ اور دادی ماں محلے کے  ایک گھر میں دعا خوانی کے لیے گئیں ۔دعا خوانی ختم ہوئی تو عصر کا وقت ہو رہا تھا، عصر قضا نہ ہو جائے،اس لیے انہوں نے وہی نماز پڑھنے کی اجازت مانگی۔ اس گھر کی دوسری منزل پر نئی دلہن کا خواب  گاہ تھا۔ وہاں پر شوروغل  کی آوازیں نسبتا کم آرہی تھی۔ دادی ماں اور فاطمہ کو اسی  کمرے میں نماز پڑھنے کے لیے بھیجا گیا۔ وہ بڑی سی خواب گاہ کسی شہزادی کے کمرے کی طرح بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ خوبصورت قالین، پردے اور فرنیچر غرض سب کچھ نہایت ہی شاندار تھا۔ لیکن فاطمہ کو اس کمرے میں سب سے خوبصورت چیز وہ بڑی سی چارپائی  نما بستر  لگی۔  گہرے سرخ رنگ کی مخملی چادروں سے سجے نرم و گداز بستر، دو خوبصورت تکیے جو ایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ زندگی کے سب سے خوبصورت اور اطمینان سے بھر پور لمحات گزارنے کے لیے!  وہ بستر اپنے آپ میں ایک جنت کا ٹکڑا تھا۔ نماز  پڑھتے ہوےٗ فاطمہ کی نظریں بار بار اس بستر تک گئیں۔ پورے کمرے کی خوبصورتی اس  بستر کی  خوبصورتی اور دلکشی کے سامنے ماند پڑ رہی تھی۔

مغرب  کی اذان سے پہلے وہ اور دادی گھر واپس آگئیں۔ آج اس کا من گھر میں نہیں لگ رہا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد  عموماً وہ اور دادی   ماں خوب باتیں کیا کرتی  تھیں۔ لیکن آج اس کا دادی کے ساتھ باتیں کرنے کا بالکل بھی من نہیں کر رہا تھا۔ سرمیں درد کا بہانہ بنا کر وہ سونے چلی گئی لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس کا  دھیان باربار اس دلہن کی خواب گاہ میں اس  نرم و گدازگہرے سرخ رنگ کی مخملی چادروں میں لپٹے اس بستر اورایک دوسرے کے بالکل ساتھ ساتھ رکھے ان دو تکیوں کی طرف جاتا رہا۔  اسے یہ مجرمانہ احساس کہ اس خواب گاہ میں اسی بستر پر وہ اس  نوجوان لڑکے کے ساتھ ہو گی، بہت اطمینان دے رہا تھا۔  اس نے آنکھیں بند کیں تو  بیداری میں خود کو ایک پیاری دلہن کے روپ میں دیکھا جو اپنی خواب گاہ میں اپنے بستر پر اس نوجوان لڑکے کی دلہن بنی ہوئی  تھی۔ فاطمہ اپنے آپ کو اپنے دلہے کے ساتھ دنیا کے سب سے حسین گوشے میں پا کر بہت خوش  تھی۔  جنت کے اس حسین گوشے میں اس کا ایک مرد کے اتنے قریب  ہونا!  نہ ہی وہ خوفزدہ تھی اور نہ ہی اسے شرم آرہی تھی۔  وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان کی نظروں میں فاطمہ کے لیے بے پناہ محبت تھی۔ ان دونوں کے درمیان کوئی پردہ نہ تھا، وہ ہر قید سے آزاد ایک دوسرے کے بالکل قریب تھے۔ اتنا قریب کہ وہ نوجوان کی دل کی دھڑکنوں اور اس کی سانسوں کی گرمی کو محسوس کر سکتی تھی۔ اپنے وجود کے اتنے قریب نوجوان کی قربت سے اس کا سارا بدن شعلے کی مانند دہکنے لگا۔  اس نے اپنے بازووں سے خود کو مضبوطی سے  جکڑ کر اپنے آپ کو نوجوان کے سپرد کردیا اور محبت سے بھر پور فطرت کے  لمحات میں  ڈوب کر پہلی مرتبہ کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی اس نےکھل کر اپنی مرضی کی زندگی جی لی پھرنجانے کب  نیند کی پرسکون وادی میں چلی گئی۔                                      

فجر کی اذان سے آنکھ کھلی  تواس نے دادی ماں کو جگایا۔ وضو کر کے نماز پڑھی۔ دادی کی طبیعیت کچھ بوجھل  سی تھی۔  ناشتہ کرنے کا ان کا من نہیں ہورہا تھااس لیے دوبارہ آرام کرنے کا کہہ کر وہ سونے چلی گئی۔ مولوی ابا ان سے پہلے اٹھ جایا کرتے تھے لیکن مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد  درس و تدریس کے لیے وہی رک جایا کرتے تھے اور خوب سورج چڑھتے گھر واپس آتے تھے۔

صبح کی خنک ہواؤں کے باوجود صحن میں بیٹھی فاطمہ اپنی گزری ہوئی رات کے بارے میں سوچنے لگی۔ رات کو جو بے چینی تھی اب اس کی جگہ  ندامت اور اضطراب نے لے لی تھی ۔ وہ یہ سب کچھ کیوں کر سکی؟ اس سےاتنا بڑا گناہ کیسے سرزد ہو گیا؟  اگر اسے ایک نا محرم کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی تو وہ کیونکر اسکے اتنا قریب  ہوئی؟  اگرچہ یہ خواب تھا لیکن خواب بھی تو سوچوں کا عکس ہوتے ہیں ۔ مارے خوف اور ندامت کے اس نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھا اور رو رو کر دعائیں مانگنے لگی۔ “اللہ میاں جو کچھ میں نے کیا ہے اس میں میری دادی ماں کا کو ئی قصور نہیں ۔ انہوں نے مجھے  ہر چیز کا فرق سمجھایا تھا۔ وہ میری کسی غلط سوچ کا حصہ نہیں ہے۔ اللہ میاں تو مجھے دوزخ واسی کر۔ میں تیری جنت کے لائق نہیں رہی اور نا ہی دادی ماں سے نظریں ملانے کےقابل۔ میرا من بہت گندا ہو چکا ہے۔ میں اپنے نام کی لاج بھی نہ رکھ پائی۔ قیامت کے دن میں بی بی فاطمہ کو کیا منہ دکھاؤں گی !؟  اللہ میاں میری دادی ماں کو میری غلط سوچ کی سزا نہ دینا۔ انہیں اس دنیا میں اپنی نعمتوں اور اگلی دنیا میں اپنی جنت سے محروم نہ رکھنا”۔

وہ جب رورو کر تھک  چکی اور اس کے سارے آنسو خشک ہوچکے تو وہ  اٹھ کر صحن کے پچھواڑے میں گئی، شہتوت کے اس گھنے درخت کے پاس جہاں وہ جھولا جھولا کرتی تھی۔ آج وہ ایک عرصے بعد یہاں  جھولا جھولنے آئی تھی۔  مضبوط  اور موٹی  سی رسی کا گچھا درخت کی نچلی شاخ پر لٹک رہا تھا۔ فاطمہ نے وہ رسی اتاری، اس کے ایک سرے کو درخت کی ایک شاخ پر ڈال کر ایک مضبوط گانٹھ لگائی، رسی کے درمیانی حصے میں جہاں وہ  بیٹھا کرتی تھی، بہت مہارت سے ایک گول ہالہ بنایا اور رسی کےدوسرے آزاد سرے کو درخت کی دوسری شاخ پر ڈال کر گانٹھ باندھی تو ایک جھولا بن گیا۔  لیکن آج یہ جھولا  اس کے قد سے کہیں زیادہ اونچا تھا۔ فاطمہ نے رسی کھینچ کر تسلی کر لی کہ گانٹھ مضبوطی سے بندھی ہوئی ہے۔ چلو رسی  کی مضبوط گانٹھ باندھنےکا ہنراس کے کسی کام تو آیا!  یہ سوچ کر فاطمہ دوبارہ صحن میں گئی اور ایک کونے میں پڑا وہ قدرے اونچا اسٹول اٹھا کر شہتوت کے درخت کے پاس لے آئی جس پر چڑھ کروہ کمروں کی چھت کی صفائی کیا کرتی تھی۔ فاطمہ سٹول پر چڑھ گئی، رسی سے بنے گول ہالے کو دلہن کے ہار کی طرح اپنی گردن میں ڈال کر اس کی گانٹھ مضبوط کی۔ پھر اس نے اپنی پوری قوت سے سٹول کو پیچھے دھکیلا اور آخری بار ہوا میں جھولنے لگی۔                                                                                                                   

                                                 

زہرا علی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *