سالگرہ ۔۔۔ شمامہ حسن

سالگرہ ۔۔۔  (افسانہ)

شمامہ حسن

اس دن نور  کی سالگرہ تھی۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ  بستر سے نکل کر دوڑتے ہوئے اپنی امی کے پاس گئی تاکہ ان سے اپنی سالگرہ پرنقلی بندوق کا تحفہ مانگ سکے۔

“امی مجھے نقلی بندوق چاہیےتاکہ میں اپنے ابو کو دکھا سکوں۔ پھر ان کی ناراضگی ختم ہو جائے گی۔ انہیں اپنے بیٹے کو پولیس بنتا دیکھنا تھا لیکن ان کا کوئی بیٹا نہیں اس لیے ان کی یہ خواہش میں پوری کروں گی۔  امی پھر ابو مجھے پیار کریں گے ناں؟” اس نے کانپتے ہونٹوں سے امی سے پوچھا۔  نور کے ان سوالوں کا اس کی امی کے پاس کوئی جواب نہیں  تھا اس لیے انہوں نے محض سر ہلا کر ہاں میں جواب دینا ہی مناسب سمجھا۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔

 کہنے کو تو وہ نورعلی تھی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے والد کے پاس نور کو دینے کے لیے اپنا نام تو تھا مگر اپنی پہچان دینے سے اسے شرمندگی محسوس ہوتی تھی. وجہ صرف اتنی سی تھی کہ وہ ایک لڑکی تھی. لڑکے کی خواہش نے تو جیسے باپ کا دل پتھر کا کر دیا تھا جس میں نور کے لئے صرف نفرت تھی۔ جس دل میں محبت کی خنکی ہونی چاہیے تھی اس دل میں نفرت کے شعلے بھڑکتے تھے۔ نور نے اپنے والد کے دل میں جگہ بنانے کی بہت کوشش کی مگر راستے کی سڑک پر نفرت کی بارش نے ایسا قہر برسایا تھا کہ جس نے نور کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ نور کو آخر چاہیے کیا تھا، زیادہ سے زیادہ یہی کہ اس کے والد اس کو اپنا نام دیں، اپنی پہچان دیں اور اس سے محبت کریں۔ وہ روز سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرتی مگر  آئینے کے سامنے اس روشن سورج کو غروب ہوتے ہوئے پاتی۔والد کی بے رخی کے باعث اس کی خواہشوں کا شیش محل ٹوٹ کر چکنا چور ہو چکا تھا۔ وہ جس کے انتظار میں رات دیر تک جاگا کرتی اب ان کے قدموں کی آہٹ سے خوفزدہ ہوجاتی۔ وہ لڑکی جو ہمیشہ زندگی کی خواہش مند تھی اب موت کی طلب میں  تو جیسےاپنے آپ کو مٹا رہی تھی۔ وہ اس شخص سے گلے ملنے کے لئے ترستی رہتی تھی  جس کی شفقت کے سائے میں بیٹیاں ساری زندگی گزاردیتی ہے۔ خنک چھاؤں میں ہونے کے باوجود بھی وہ جھلس کر راکھ ہو رہی تھی۔ نور بھی آخر کب تک سہتی لوگوں کے طعنے بھی تو نظر انداز ہو سکتے ہیں مگر باپ کے ہوتے ہوئے بھی کسی کا ہاتھ سر پر نہ ہونا، بابا کہہ کر پکارنے کے لیے ایک شخص کا موجود ہونا لیکن ماننے کے لیے کوئی نہ ملنا! یہ تلخ حقیقت ایک بیٹی کیسے برداشت کرتی۔ آخر اس کے والد کو یہ سمجھ میں کیوں نہ آیا کہ اس معاشرے میں زندگی گزارنے کے لئے صرف سر پر چھت مہیا کرنا کافی نہیں۔نور ہر دن اپنے دل کی عدالت میں اپنے باپ کے خلاف لڑی جانے والے مقدمے کو ہار رہی تھی۔ وہ یہ جان چکی تھی کہ اس کی آنکھوں سے نکلے آنسو کا کوئی بھی قطرہ یا اس کے منہ سے نکلا ہوا کوئی بھی لفظ اسے جتوا نہیں سکتا۔ اسی طرح  دن گزرتے رہے پھر اس کی سولہویں سالگرہ کا دن آیا۔ اس کی امی کئی دنوں سے اس دن کی تیاریاں کر رہی تھی۔ لیکن آج گزشتہ سالوں کی طرح کچھ نہیں ہوا۔نور اپنے کمرے سے نکلی ہی نہیں نہ وہ ہر سال کی طرح  اپنی امی سےاپنی سالگرہ کا تحفہ  مانگنے آئی۔ماں کو کچھ عجیب سا لگا۔ وہ پریشان ہو کر نور کے کمرے میں گئی تو نور کا بستر خالی تھا جبکہ نور  بستر کے دوسری جانب  فرش پر بے سدھ  پڑی ہوئی تھی۔ پاس ہی ایک چھوٹی خالی شیشی  نظر آرہی تھی۔ وہ بدحواس ہوگر آگے بڑھی۔ اس  کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے اپنی بیٹی کا کندھا ہلایا اور لاکھ  آوازیں دیں لیکن نور کے جسم میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ اسے احساس ہوا جیسے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس نےنور کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسےاس کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ اور سکون کا احساس  ہوا۔ تبھی اس کی نظر نور کے ہاتھوں پر پڑی۔ اس کی مٹھی میں کاغز کا ایک ٹکڑا دبا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس نےنور کی بند مٹھی کھول کر کاغز نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا

“امی، اب بابا مجھے پیار کریں گے ناں؟”

0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *