بد دُعا ۔۔۔ طلاء چنگیزی 

بد دُعا ۔۔۔ افسانہ 

طلاء چنگیزی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھی بیوہ عورت ایک چھوٹے سے شہر میں اکیلی اپنی زندگی کے دن گزار رہی تھی. شہر میں آئے دن جاری تشدد، قتل و غارت گری اور امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث اس کے شوہر اور تین جوان بیٹے یکے بعد دیگرے بے گناہ قتل ہو چکے تھے اور اب پوری دنیا میں اس کا کوئی بھی والی و وارث اور پرسان حال نہیں رہا تھا. اس نے انصاف کے حصول کے لیے کونسا دروازہ تھا جو نہیں کھٹکھٹایا، لیکن کسی بھی جگہ سے اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی. ہر جگہ سے اسے کورا سا جواب ملا بلکہ ساتھ میں یہ تنبیہ کی گئی کی وہ اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لے اور سب کچھ بھول جائے. لیکن وہ بھی اپنے دھن کی پکی تھی. 

در در کی ٹوکریں کھانے کے بعد ایک دن تنگ آ کر اس نے ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا اور وہ یہ تھا کہ کسی طرح اپنا مقدمہ خدا کے سامنے رکھے گی. کیونکہ قاتلوں نے اس کے شوہر اور بیٹوں کو مارتے وقت اسی کا نام لے کر باری باری انہیں قتل کیا تھا اور ان ظالموں کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب صرف اور صرف خدا کی خوشنودی کیلئے کر رہے تھے. اسی لیے دکھیاری بڑھیا نے سوچا کیونکہ یہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا ہے لہذا صرف وہی اسے انصاف مہیا کر سکتا ہے. لیکن اس پورے معاملے میں مشکل یہ تھی کہ اسے خدا کا پتا معلوم نہیں تھا. خیر اِدھر اُدھر سے پوچھتے پچھاتے، بڑے جتن کے بعد ایک مجذوب بابا کے ڈیرے پر پہنچی تو اس نے رازداری کی شرط پر کہ وہ یہ راز کسی اور پر افشا نہیں کریگی، اسے خدا کا پتہ بتانے کی حامی بھر لی. مجذوب نے اسے بتایا کہ وہاں سے کوسوں دور ایک پہاڑی کی چوٹی پر دنیا کے جھمیلوں سے دور خدا کی رہائش گاہ ہے. 

وہاں سے رخصت لینے کے بعد کئی دن اور راتوں کی مسافت طے کر نے کے بعد وہ جب گرتی پڑتی اور لاٹھی ٹیکتی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچی تو اسے ایک عالیشان اور خوبصورت محل نما عمارت دکھائی دی. دروازے پر لگی کونٹی کئی بار اپنی لاٹھی سے کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب کسی‌ نے کواڑ نہیں کھولا تو وہ خود ہی اندر داخل ہو گئی. دیکھا کہ ایک باغیچہ ہے جس میں انواع و اقسام کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے. یہاں سے گزر کر مرکزی عمارت کے اندر داخل ہوئی تو پہلے اسے کچھ بھی دکھائ نہیں دیا۔ جب چند لمحوں کے بعد اسکی کمزور بینائی اندر کے ماحول سے آہستہ آہستہ آشنا ہونے لگی تو اس نے دیکھا کہ ایک بلند وبالا تخت پر خدا براجمان تھے اور بڑے انہماک اور غور سے اپنے سامنے پڑے ایک بڑے نقشے پر اپنی نظریں گاڑھے دنیا کے امور نمٹانے میں مصروف تھے. تخت کے پائیں ایک کھلا پنجرہ پڑا تھا جس کے اوپر ایک خوبصورت طوطا اٹکھیلیاں کررہا تھا. بڑھیا کو دیکھتے ہی طوطا کہنے لگا – 

“بڑھیا آگئی –  بڑھیا آگئی “

بڑھیا نے قدرے ناگواری سے طوطے کو چپ کرانے کی کوشش کی تو خدا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا.

“ارے اسے کچھ نہیں کہنا. یہ تو میرا لاڈلا طوطا ہے. میرے پاس تب سے ہے جب یہ ایک چھوٹا سا بچہ ہوا کرتا تھا. میں نے اپنی گوناگون مصروفیات سے وقت نکال کر اور اپنے ہاتھوں سے چوری کھلا کھلا کر اسے پالا پوسا ہے. خیر تم اب جلدی جلدی اپنے آنے کا مقصد بیان کرو کیونکہ تم دیکھ رہی ہو میں آج کل کتنا مصروف رہتا ہوں”

خدا کے لہجے سے محبت اور شفقت عیاں تھی. 

اس پر بڑھیا کو جیسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا اور افسردگی سے کہنے لگی !

“میں ایک چھوٹے سے شہر کی رہائشی ہوں اور اپنے شوہر اور تین جوان بیٹوں کی بے گناہ موت کی فریاد لے کر حاضر ہوئی ہوں. اور آپ جو اس دنیا کے مالک ہیں اس سے انصاف کی متقاضی ہوں. “

اس پر خدا کچھ سوچتے ہوئے قدرے حیرت سے پوچھنے لگا.

“کیا کہا – کیا اس نام کا کوئی شہر ہے؟  ہاں – ہاں – اچھا یاد دلایا – کیا یہ وہی شہر تو نہیں جہاں آجکل نامعلوم لوگ معلوم افراد کو مار کر بآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں .”

اس پر بڑھیا نے بے صبری سے اثبات میں سر ہلا دیا.

خدا بات جاری رکھتے ہوئے آپنی صفائی میں کہنے لگا – 

“دراصل  آجکل میرے پاس اتنے بڑے بڑے مسائل جمع ہو گئے ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے واقعات کے مناسب سدباب کیلیے وقت ہی نہیں بچتا. دنیا اور کائنات کے رموز سمجھنا اور امور چلانا کوئی مذاق کی بات تو ہے نہیں. ان بڑے بڑے مسائل کی وجہ سے میرا دھیان بٹ جاتا ہے “

اس پر بڑھیا رو رو کر فریاد کرنے لگی اور التجائیہ انداز میں کہنے لگی ۔

“میرے پہلے بیٹے کو میرے گھر سے آدھی رات کو چند وردی پوش افراد نے اٹھا لیا تھا ارے وہی جو ہماری حفاظت کے ضامن تھے اور کچھ دنوں بعد اسکی مسخ شدہ لاش ملی. ہائے ہائے – کتنے ارمانوں سے اسے پال پوس کر جواں کیا تھا۔”

اس پر خدا تسلی آميز انداز میں کہنے لگا – 

“صرف ایک تمھارے بیٹے کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا ہے. میرا مشورہ ہے کہ تم فی الحال صبر و شکر سے کام لو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.”

“دوسرے بیٹے کو کچھ نامعلوم افراد نے دن دھاڑے دو سیکورٹی چیک پوسٹوں کے درمیان ٹارگٹ کر کے گولیوں سے بھون دیا، جو دراصل ہماری حفاظت کے لیے قائم کئے گئے تھے. کتنا ہنس مکھ اور پیارا بیٹا تھا۔”  بڑھیا ذرا  تیز لیجے میں کہنے لگی ۔

“اسکی قسمت میں دراصل یہی لکھا گیا  تھا. تمہیں پتا ہے کہ یہ میری دنیا چند روزہ ہے اور میرے خاص بندوں کے لیے ایک آزمائش گاہ ہے. یہ تکالیف اور پریشانیاں تمہیں سچا اور کھرا انسان بنانے میں مدد دینے کے لیے بنائی گئی ہیں۔”  

خدا  دھیمے لیکن سرپرستانہ انداز میں کہنے لگا۔

“سب سے چھوٹے اور گھر بھر کے لاڈلے تیسرے بیٹے کو ایک بم دھماکے میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا. جب جب اس کا چہرہ نظروں کے سامنے آتا ہے تو دل پر چھری سی چلنے لگتی ہے۔”  

بڑھیا رنج و تکلیف کی شدت سے چلاتے ہوئے کہنے لگی !

“تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے اپنے بےگناہ بندوں کے لیے شہادت کا رتبہ رکھا ہے اور انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔”  

خدا دوبارہ اپنے دھیمے اور پرسکون انداز میں بڑھیا کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا۔ 

اس پر بڑھیا غصے میں آپے سے باہر ہوگئی اور اپنی لاٹھی پنجرے کے اوپر بیٹھے طوطے کے سر پر دے ماری، اور بیچارہ طوطا ایک دردناک اواز کے ساتھ ادھ موا ہو کر زمین پر گر گیا اور درد سے ٹایٔیں ٹایٔیں کرنے لگا۔

خدا جو اس غیر متوقع صورتحال کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا غصے سے گرج کر کہنے لگا – 

“ارے بڑھیا – باولی ہو گئی ہو کیا؟ اِس معصوم طوطے کا قصور کیا ہے کہ اسے مار رہی ہو؟ “

آگے سے بڑھیا بڑ بڑانے لگی – 

“شکر ہے کہ ابھی یہ مرا نہیں. کیا اس نے یہ نہیں سنا کہ خدا شکر کرنے والوں کے ساتھ ہے. اور شاید یہ اس کی قسمت میں ہی لکھا گیا تھا۔ ویسے بھی اتنی بڑی دنیا میں اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات سے  کیا فرق پڑتا ہے“ 

یہ کہہ کر بڑھیا نے ہاتھ بڑھا کر طوطے کو پکڑ لیا اور اسکی ٹانگیں مروڑنے لگا جس سے وہ تکلیف سے مذید ٹیں ٹیں کرنے لگا.

خدا طیش میں آگیا ۔

“اے بوڑھی عورت لگتا ہے کہ تم واقعی پاگل ہو گئی ہو. چھوڑ دو اس معصوم پرندے کو اس نے تمھارا کیا بگاڑا ہے. “

اس پر بڑھیا ایک استہزایٔ ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگی۔

“یہ دنیا ویسے بھی چند روزہ ہے سو اس نے اور جی کے بھی کیا کرنا تھا. اچھے نیک اور معصوم مخلوق کیلئے یہ دنیا ایک آزمائش کی جگہ ہے. جو اس آزمائش میں پورا اترے گا وہی کامیاب ہو گا. یہ کہہ کر اس نے خدا کا نام لیکر کر معصوم طوطے کی گردن ہی مروڑ دی”

خدا نے شدید دکھ اور تکلیف کی کیفیت میں اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ایک غمناک آہ بھری اور کہنے لگا.  

“اری کمبخت اس بے گناہ کو مار کر تمہیں کیا مِلا؟ “

اس پر بڑے پرسکون انداز میں بڑھیا کہنے لگی

“تمہارا نام لیکر ہی تو مارا ہے. بے گناہ مرنے والوں  کیلئے جنت کی بشارت تو آپ نے خود دی ہے ؟”

اس دن خدا نے غضبناک ہو کر بڑھیا کو اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا. 

“میں تمہارے شہر اور اس کے سارے باسیوں پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب نازل کرتا ہوں۔ آج کے بعد تمہاری کوئی دعا قبول نہیں ہوگی۔ تم اسی طرح دن دھاڑے قتل ہوتے رہو گےلیکن تمہارے قاتل رات کی تاریکی کی طرح ہمیشہ پوشیدہ اور نامعلوم رہیں گے۔ 

اس پر بڑھیا ہذیانی انداز میں پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے لگی.

وہ دن اور آج کا دن، اس آسیب زدہ شہر  پر اب دن رات نامعلوم کا راج رہتا ہے. 

جاوید نادری
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *