آزادی، انسان کا بنیادی حق ۔۔۔ حسن رضا چنگیزی

آزادی، انسان کا بنیادی حق 

حسن رضا چنگیزی

پہلی قسط

دنیا میں انسان کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ مذہبی عقائد رکھنے والے لوگ خصوصاً جو کسی بھی آسمانی کتاب پر یقین رکھتے ہیں، اس بات پر متفق ہیں کہ خدا نے انسان کی تخلیق اس لئے کی تاکہ وہ زمین پر خدا کا نظام نافذ کریں۔ آسمانی کتابوں پر یقین رکھنے والوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بابا آدم کی شکل میں انسان کی تخلیق آج سے لگ بھگ دس یا پندرہ ہزار سال قبل ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار نہ صرف انسان کی تخلیق کے واقعے کو اپنے اپنے انداز سے بیان کرتے ہیں بلکہ وہ “خدا کے نظام” کی واحد تشریح پر بھی ہرگز متفق نہیں اور اپنے عقائد کے مطابق اس فلسفے کی من پسند تشریح کرتے ہیں تاکہ اپنے مخصوص عقیدے کی حقانیت ثابت کر سکیں۔ اس کے برعکس سائنس اور ارتقاء پر یقین رکھنے والوں کے خیال میں انسان کی پیدائش کے پیچھے کسی قسم کا کوئی مقصد کارفرما نہیں کیونکہ انسان کسی پھونک کے نتیجے میں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں سال کے ارتقائی مراحل طے کرکے موجودہ حالت تک پہنچا ہے اور یہ انسان ہی ہے جو خود اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرتا ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر کے علاوہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو تخلیق کے فلسفے کو مانتے تو ہیں لیکن ان کے خیال میں انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا گیا تاکہ وہ فطرت کی حفاظت کریں۔ 
اس بات سے قطع نظر کہ اس اہم سوال کا درست جواب کیا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان بہت ہی مختصر مدت کے لئے دنیا میں آتا ہے۔ اگرچہ آج سائنس کی ترقی کے باعث بہت ساری بیماریوں کا علاج ممکن ہو چکا ہے اور زندگی کو آرام دہ اور طویل تر بنانے کی کئی ترکیبیں بھی دریافت ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود انسان ابھی موت پر قابو نہیں پاسکا اور وہ اوسطاً ساٹھ یا پینسٹھ سال ہی جی پاتا ہے۔ جاپان کے لوگوں کی مثال اس لئے مختلف ہے کہ انہوں نے اپنی خوراک اور عادات و اطوار میں تبدیلی لاکر اور فطرت اور ماحول کی حفاظت کرکے زندگی کو مزید کچھ سال طول دینے کا راز پا لیا ہے اس کے باوجود وہ بھی اوسطاً چوراسی سال ہی جی پاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں صورت حال اس لئے بھی زیادہ خراب ہے کیونکہ یہاں نہ تو انسانوں کو اچھی غذا میسر ہے نہ ہی اچھا قدرتی ماحول۔ یہی وجہ ہے کہ اگرہمارے ہاں کوئی  70سال کی   طبیعی عمر جی لے تو اسے خوش قسمت تصور  کیاجاتا ہے۔  

حالانکہ ان ستر سالوں میں بھی طفولیت، بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے پندرہ سے بیس سال وہ ہوتےہیں جب انسان اکثر معاملات میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ کھاتا پیتا اور پہنتا بڑوں کی مرضی سے ہیں۔ اس کے سکول یا مدرسے کا انتخاب بھی بڑے ہی کرتے ہیں حتیٰ کہ عقیدے کے انتخاب میں بھی اس کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ اور اگر بڑھاپے میں ہاتھ پاؤں سلامت رہیں تو لے دے کے اس کے پاس چالیس یا پچاس سال باقی بچتے ہیں جب وہ اپنی مرضی سے کچھ کر گزرنے کے قابل ہوتا ہے۔

لیکن کیا اس دوران وہ واقعی اس حد تک آزاد ہوتاہے کہ اپنی زندگی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق گزار سکے؟ کیا وہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکتا ہے؟ کیا وہ اپنی مرضی کی عبادت کر سکتا ہے؟ کیا وہ اپنی مرضی سے موسیقی سن سکتا ہے اور کیا وہ کسی خوشی کے موقع پر اپنی مرضی سےرقص کر سکتا ہے!؟  شاید نہیں!

دنیا کی آبادی سات ارب سے زیادہ ہوچکی ہے جس میں سب سے بڑی تعداد مسیحیت کے پیروکاروں کی ہے۔ دوسرے نمبر پر اسلام ہے۔ جبکہ کروڑں بلکہ اربوں لوگ یہودیت، ہندو مت اوربدھ مت سمیت درجنوں دیگر مذاہب کی پیروی کرتے ہیں۔ گویا سات ارب لوگ دنیا کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھتے نہ ہی جنت و دوزخ اور ثواب و گناہ کے بارے میں ان کا نظریہ ایک جیسا ہے۔

مثلاً مختلف مذاہب کے پیروکار موت کے بعد کی زندگی اور جنت و دوزخ کے معاملے پر مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے خیال میں قیامت کابرپا ہونا واجب ہے جب انسانوں کو ان کے اچھے یا برے اعمال کے بدلے میں جنت یا دوزخ بھیج دیا جائے گا۔  جنت،  جہاں شہد، شراب اور دودھ کی نہریں بہتی ہیں، جہاں کھانے کے لئے پرندوں کا لذیز گوشت ملتا ہے اور جہاں خوبصورت حوریں اور غلمان جنتیوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ جبکہ مسیحیوں کی جنت وہ جگہ ہے جہاں خدا کا گھر ہے، جہاں خدا تخت نشین ہوگا اور اس کے دائیں طرف عیسیٰ مسیح تشریف فرما ہوں گے اور جہاں کی ملکہ حضرت مریم  ہوں گی۔ مسیحیوں کی تعلیمات میں وہاں دودھ اور شہد کی نہروں یا حوروں کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ ان کے عقیدے کے مطابق جنت ایک عارضی قیام گاہ ہوگی جہاں سےپاک  روحوں کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں بھیج دیا جائے گا جو پچھلی دنیا سے زیادہ خوبصورت ہوگی۔یہودیوں کا جنت اور دوزخ کے معاملے میں عقیدہ یکسر مختلف ہے۔ ان کے مطابق جنت اور دوزخ مسیحیوں کا عقیدہ ہے جبکہ  یہودی عقیدے کے مطابق مرنے کے بعد انسانوں کی روحیں ایک نیم تاریک مقام پر جمع ہوں گی جہاں ان کو پاک کیا جائے گا تاکہ وہ نور ازل پاسکیں۔بدھ مت کے عقیدے کے مطابق انسان بار بار مرتا اور زندہ ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ کوئی ہربار انسان کی شکل میں ہی جنم لےبلکہ  وہ اپنے اچھے یا برے اعمال کے نتیجے میں کسی دیوتا، جانور یا بھوت کی شکل میں بھی آسکتا ہے۔ اچھے کاموں اور سخت تپسیا کی بدولت ہی انسان اس دائروی عذاب سے ہمیشہ کے لیےنجات پاسکتا ہے جسے نروان کہتے ہیں۔

بدھ مت کے پیروکاروں کی طرح ہندو  بھی ایک سے زیادہ جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق آتما یعنی روح کبھی فنا نہیں ہوتی بلکہ و ہ انسان کے مرنے کے بعد کسی دوسرے جسم میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق سورگ اور نرکھ وہ دو مقامات ہیں جہاں اچھی اور بری آتمائیں عارضی طور پر قیام کرتی ہیں۔سورگ اچھے دیوتاؤں کی جائے رہائش ہے جبکہ نرکھ میں غضب کا دیوتا “یما”  قیام پزیر ہے۔

حسن رضا چنگیزی
0 Shares

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *